حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی رحمتہ اللہ
اُفق عالم پہ چھا جانے والی علمی و روحانی شخصیت
حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی رحمتہ اللہ
مختصر سوا نحی خاکہ از قلم: شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی حبیب الرحمن درخواستی صاحب دامت برکا تہم
اللہ جل جلا لہ ،اور اس کے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلمکے دین عالی کا عظیم داعی قطب الا قطاب حضرت خلیفہ غلام محمد سے سلوک و تصوف زہد وتقو ی کی رنگ سے مکمل اور پورا پورا رنگ پانے والے درویش صفت مرد حق حافظ محمود الدین درخواستی کو رب ذلجلال نے انکے عمر بھر تقویٰ من اللہ ،اتباع سنت والی زندگی خدمت قرآن مجید اور علا قہ میں سینکڑوں حفاظ قرآن کی کھیپ تیار کرنے پر بہت بڑا انعام فرمانا چاہتے ہیں کہ ٩ محرم الحرام ١٣١٣ھ جمعتہ المبارک درخواست میں ان کو ایک لخت جگرنور نظر بیٹا عطا فرمایاجس کے مقدر میں ایک سو پانچ سال کتاب و سنت اور دین اسلام کے تمام شعبوں کی خدمت عالیہ کی سعا دت رکھ دی ۔انعام کے طور پر اتنا بڑا صدقہ جاریہ عطا فرمایا کہ اس ولد صالح کی عظیم دینی خدمات کے باعث والدخو ش نصیب پر رحمتوں کی گھٹا ئیں برستی رہیں یہ قسمت کا دھنی لخت جگر جس کا نام احبُ الا سمآء الی اللہ عبداللہ قررار پایا۔ جوں ہی اس نو نہال نے ہوش سنبھالا تو والدمحترم کی گود میں قرآن مجید حفظ کرتا نظر آیا نو سال کی عمر ہوئی تو درس گاہ اور خاندان میں حافظ محمد عبد اللہ کے نام سے پکارے جا نے لگے۔ولی کامل والدگرامی کی معصوم نگاہ و آغوش میں ابتدائی تعلیم وتربیت کا مرحلہ مکمل ہو ا چا ہتا ہے تو گردونواح کی خداشناس علمی شخصیات نے وسطانی تعلیم کے لئے اپنے دامان شفقت بچھا اور علم معرفت سے اُچھلتے سینے کھول دیے اللہ تعالی نے اپنی رحمتوں کے رخ ا پنے اس مقبول بندے کی طرف کچھ اس طرح موڑ دیئے کہ استعداد اور حفظ و ذہانت میں اس کی کوئی مثا ل نہیں ملتی یوں پانچ سال کی مدت میں وسطانی درجہ کے علوم و فنون ،صرف نحو ،ادب ،فقہ ا،صول فقہ ،منطق وغیرہ میں مہارت تامہ حاصل کرتے ہوے تمام اسا تذہ کے علوم صرف اپنے ایک سینے میں جمع کر لیے اس دور کے ہم درس گویا ہوے کہ ان کا نام تو طلبہ میں ہے۔لیکن استعداد اسا تذہ جیسی بلکہ اسی دوران چند درجات کے طلباء کو باقاعدہاسباق پڑھاتے ہوے خد استاد بھی بن گئے ایک طرف قرآن مجید و حدیث رسو ل اللہ ۖ کے فہم و ادراک کی استعد پیدا ہو ا چاہتی ہے۔تو دوسری طرف والد گرامی قدر نے ذکر اللہ تعلق مع اللہ اور روحانیت کی جو گٹھی پلا رکھی تھی اس کا رنگ نکھرنے لگا دل کو دلوں کے زندہ کرنے والے کی تلاش نے بیقرا رکر دیا یعنی دل مرشد کامل کی تڑپ میں تڑپنے لگا ۔والد محتر م کا مقام ولایت آنکھوں کے سامنے تھا ۔تو ضمیر نے فیصلہ کر لیا کہ کچھ ملے گا تو وہیں سے ملے گا ۔جہا ں سے والد بزر گوار کو ملا ہے۔ آپ کی عمر ٥١ سال ہو چکی ہے ۔رمضان المبارک کی ستائیسویں٧٢کی شب ہے غالباً لیلتہ القدر ہو گی سلطان العا رفین قطب الاقطاب حضرت خلیفہ صاحب دین پوری کی خدمت اقدس والد گرامی قدر کی معیت میں حاضر ہو کر سلسلہ عالیہ قادریہ میں شرف بیعت حاصل کرتے ہوئے والد مکرم کے مربی و مرشد کے ساتھ روحانی نسبت قائم کر تے ہیں اور بس پھر اپنے آپ کو ان کے حوالے کر دیتے ہیں ۔جب اللہ کا خصوصی فضل ہو تا ہے تو عروج کی منزلیں بچپن ہی سے طے ہونا شروع ہو جا تی ہیں تو یہ عروج و ترقی کا پہلا زینہ ہے کہ باکمال فرزند روحانی سند میں پدر باکمال کے بر ابرہوا چاہتا ہے۔ جبکہ اس خوش بخت بیٹے کو اس سے پہلے بھی ایک اور نسبت میں والد ذی قدر کے ساتھ تماثل نصیب ہو چکا ہے ۔یعنی حافظ قرآن ہو نے میں اب اس سالک فاضل پر شیخ کامل کی توجہ کا اثر ایسا ہوا کہ اس کے لئے شیخ سے دوری نا قابل برداشت ہو گئی ادھرشیخ کا قلبی رجحان ایسا لگتا ہے کہ اس طالب صادق کو علوم ظاہریہ کی تکمیل تک علوم باطنیہ کافیضان کامل عطاء کر دیا جائے ۔اس لیے مرشدبرحق کے ارشاد پر بقیہ علوم خصوصاً علم حدیث و تفسیر کی تکمیل کے لئے دین پور شریف کے مدرسہ راشدیہ کے چمن رشدو ھدایت کا تعین کر دیا گیا۔با خدا اسا تذہ سے علوم شریعت کا استفادہ ہو رہا ہے کہ احادیث نبویہ کے حفظ کا امر ہو گیا ہے قدرت نے اس کو جید عالم دین حافظ القرآن کے ساتھ حافظ الحدیث بنانے کا فیصلہ بھی کر لیا ہے۔تو حافظ الحدیث کا ذوق اور اس کے لیے شرح صدر فرمادیا ہے روزانہ بیسیوں احدیث یاد کر کے شیخ کو سنانا معمول ہو گیا اب قسمت کے عجیب مو سم بہار میں شوق و ذوق اور کمال ادب کے ساتھ حفظ کی گئی احدیث رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم وجد کی کیفیت میں شیخ کو سنائی جاتیں اور شیخ ارشادات رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر جھو متے ہوے سن رہے ہیں اور خوب دعائیں دے رہے ہیں اور یہ عجیب سماںء کافی عرصہ تک چلتا رہا ان توجہا ت اور دعاوں نے اس فاضل جلیل کے قلب و جگر کو ایک نئی زندگی عطاء فرما دی جو ولی کامل حافظ الحدیث بننے کی تمہید قرار پائی یوں تین سال ظاہری و باطنی کتاب و سنت تصوف و سلوک کی تکمیل اور حفظ حدیث کا آغاز ہو ااب وقت آگیا ہے کہ اس شب بیدار طالب صادق علوم نبویہوفنون عربیہ کے ماہر ذکر اللہ و معرفت الہیہ سے سر شار اساتذہ و شیخ کی نظروں کے محور فاضل اجل کو اسا تذہ نے دستار بندی اجازت فی الحدیث وتفسیر کا سارٹیفیکٹ دینا ہے تو مرشد باکمال نے اپنی ہی دستار بندی کے لیے پیش فرما دی جو در حقیقت علوم شریعت کے ساتھ علوم معرفت کی تکمیل کاا علان تھا اہل نظراس نظر پر عش عش کر اٹھے کہ یہ باکمال فاضل اپنے تمام ہمعصروں سے بہت آگے نکل گیا ۔ اٹھارہ سال کی عمر میں علوم ظاہری علوم نبویہ یعنی علوم شریعت علوم معرفت کی بیک وقت تکمیل میں امت کی قیادت کا واضح اشارہ نہیں۔مرشد کے حکم سے اپنے آبائی گاوں درخواست میں مدرسہ قائم ہوتا ہے بطور مدرس کام شروع کر دیا جاتا ہے ابتدائی تدریسی مراحل نہائی مراحل کی طرح طے ہوا چاہتے ہیں فارسی اور صرف سے بخاری شریف تک اسباق ہیںاور ساتھ معاون مدرس کوئی نہیں۔ اس دور میں صحاح ستہ اکٹھے نہیںپڑھائی جاتی تھیںحدیث شریف کی ایک ایک کتاب الگ الگ پڑھانے کا معمول تھا ۔گویا تدریس کے پہلے ہی سال سے دورہ حدیث شریف کا پڑھا نا نصیب ہو ا اور پھر عمر کے آخری سال تک جاری رہا اور یہ بھی اسی عظیم استاد کی خصوصیات میں سے ہے بعد میں معاون استاد کا بھی انتظام ہوا دورہ حدیث شریف اور دورہ تفسیرالقرآن المجید آپ کے ذوق حسین کے دلچسپ مضامین قرار پاے تدریس کے اس زوق حسین نے ہجرت پر مجبور کیا کئی سال دین پور شریف کئی سال ڈیرہ نواب احمد پور شرقیہ کئی سال بستی مومن اور پھرآخری مرکز خانپور اور مخزن العلوم قرار پایا ۔چونکہ ان محبوب مضامین کا تعلق دینی مدارس سے وابستہ تھا تو جس طرح قرآن و حدیث سے عشق تھا ۔ بعینہ اسیطرح تعلیم و قرآن و حدیث کے مراکز مدارس عربیہ سے تھا ۔ ہر شہر ہر قریہ دینی مدارس کا قیام یہاں مدرسہ وہاں مدرسہ اس عشق کا آخری مظہر جامعہ عبد اللہ بن مسعود خانپور قرار پایا ۔جس کے حسن کمال اور شہرہ آفاق ہونے میں تو آپ کی تو جہات آشکار ہیں ۔ آ پ کے دورہ حدیث دورہ تفسیر کو من جانب اللہ وہ کمال قبولیت نصیب ہوئی کہ اس کے فیض یافتہ آج دنیا کے ہر کونہ میں خدمت دین میں مشغول نظر آتے ہیںپاکستان ،انڈیا،ایران،افغانستان،ملائیشیا،سعودی عرب ،بنگلا دیش،بحرین، مصر،افریقہ،امریکہ،برطانیہ پوری دنیا میں یہ پھیلتا فیضان فیضان رحمت ہے ۔دین عالی کی ان عظیم خدمات کیبدولت رب کائنات نے آپ کے چہرے کوایسا منور اور با رُعب بنا دیا تھا ۔کہ دیکھنے والا اس پور نور پور کشش چہرے کوایک نظر دیکھتے ہی آپ کی محبت میں آپ کا دیوانہ اور آپ کی ذات کا گرویدہ ہو جا تا لیکن معرفت الٰہی سے بھر پور دل کے باعث رُعب اتنا کہ بڑی سے بڑی شخصیت کو سامنے بولنے کی ہمت نہیںہو تی ۔شفقت و پیار کا یہ عالم کہ چھوٹے سے چھوٹا بچہ ادنیٰ سے ادنیٰ طالب علم بھی اپنی بات خود منوا سکتا ہے اور علمی و روحانی وجاہت کا یہ عالم کہ شیخ الحدیث صدالمدرسین سیاسی ومذہبی جماعتوں کے قائدین بھی کانپ جاتے ۔تقریباًنصف صدی قرآن وحدیث کی تدریس عوام الناس کی اعتقادی عملی روحانی اصلاحی اوربمعہ سند ومتن حفظ حدیث کے محبوب مشاغل میں بیت چکی ہے ۔ عوام وخواص کی زبان پراستاذ العلماء زبدة الصلحاء حافظ الحدیث حضرت درخواستی دامت برکاتہم کے نام سے پکارے جانے لگے تواب علماء امت کی قیادت کااعلان باقی ہے کہ 1962ء میں شیخ التفسیر قطب زمان حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمةُاللہ علیہ امیرجمعیت علماء اسلام کی وفات حسرت آیات کے بعد مشرقی پاکستان ومغربی پاکستان کے علماء کرام جمعیت علماء اسلام کل پاکستا ن کے پلیٹ فارم پرمتفقہ فیصلہ ہوتاہے کہ کاروان ولی اللہی علماء حق کی نمائندہ جماعت جمعیت علماء اسلام کل پاکستان کی قیادت وامارت کا تاج شیخ الاسلام مفسر قرآن حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبداللہ صاحب درخواستیکے سرپررکھاجاتاہے اوریہ منصب زندگی تک قائم رہا ۔بستی درخواست کے گاؤں کاباسی حضرت اقدس خلیفہ دین پوریکاطالب العلم آج بیک وقت شیخ الحدیث حافظ الحدیث شیخ التفسیر صدرالمدرسین عظیم داعی امیرالعلماء استاذ العلماء روحانی شیخ طریقت قائد سیاست اسلامیہ سرپرست مدارس دینیہ صاحب بصیرت محبوب العلماء والصلحاء سید العارفین صاحب جمال وجلال شخصیت دنیا پہ چھاجانے والا مرد حق وراستی اطراف عالم پرروشن ستارہ کی طرح چمکنے لگاہے ۔ہرمرکزہرجماعت ہرخانقاہ ہرمدرسہ ہرجہادی سنٹربلکہ ہرعالم ہرطالب ہرمسلک ہرمجاہد کارخ حضرت درخواستی کی طرف اورحضرت درخواستی کی توجہ اس کی طرف ۔بس یہ ایک شخصیت ہے یاایک تحریک ۔دس دس پندرہ پندرہ دن کے تبلیغی دورے نہ کھانے کی فکرنہ آرام وراحت کاخیال روزانہ دس دس اجتماعات سے خطابات ،بس ایک درد ہے ،ایک فکرہے کہ اللہ کی دھرتی پراللہ کا نظام آجائے ۔ایک احساس ذمہ داری ہے ۔ جماعت کی امارت کابوجھ ہے جسنے کھانے کی لذت سے بے آشناکردیاہے ۔قوم کی زبوں حالی کاغمہے جس نے نیند کے سکون کو کڑوابنادیاہے۔رفقاء کواپنے کھانے کالقمے بناکرکھلارہے ہیں کہ میرے مشن کے شریک بن جائیں میرے درد کواس طرح بانٹنے والے بن جائیں کئی لقمے لیتے پانی پانی ہورہے اور کئی ترانوالہ سمجھ کرخوب اُڑارہے ہیں ۔
بیس بیس دن نہایت ہی مشقت ومجاہدہ سے بھرپورلمبے سفرسے واپسی پر رفقاء وسفرمیں سے کسی کوہوش نہیں تکھاوٹ سے چورچور ہیں رات کے بارہ بجے واپسی ہوتی ہے لیکن حب رسول کاغلبہ اتباغالب آتاہے کہ صبح کوحضرت درخواستیدارالحدیث میں ہشاش بشاش بخاری شریف کا درس ارشاد فرماتے نظرآتے ہیں (یہ ہمارے آباء واجداد کوئی ان جیسا ہوتولاؤ)حافظ الحدیث نانا جان حضرت درخواستی رحمہ اللہ کی اخلاص بھری تعلیما ت کو عنداللہ کچھ ایسی قبولیت نصیب ہوئی کہ تقریباًپاکستان کے کسی بڑی ادارے پرنظرپڑتی ہے توحضرت کافیضان کرم واضح نظرآتاہے صوبہ سندھ اورکراچی والوں سے پوچھاکہ پاکستان میں علماء حق کاسب سے بڑا معتمد ترین ادارہ جامعة العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی اس وقت مہتمم وشیخ الحدیث کون ہے تومعلوم ہواکہ حضرت درخواستی کے تلمیذ خاص حضرت اقدس مولانا ڈاکٹرعبدالرزاق سکندر صوبہ سرحد والوں سے پوچھوپاکستان میں ثانی دارالعلوم دیوبند اکوڑہ خٹک کاشیخ الحدیث کون ہے توجواب ملتاہے کہ حضرت درخواستی کے تلمیذ خاص مولاناڈاکٹرشیرعلی خان المدنی کل دارالعلوم کبیروالاکے شیخ الحدیث ومہتمم کون تھے توکہاجاتاہے کہ حضرت درخواستی کے تلمیذ خاص محدث کبیر مولانا علی محمد صاحب جامعہ نصرت العلوم گوجرانوالا کے بانی کون تودنیا گویاہوتی ہے کہ حضرت درخواستی کے تلمیذ خاص حضرت اقدس صوفی عبدالحمید صاحب ۔ملک کی قدیمی تکمیل فنون کی درسگاہ جامعہ انوریہ حبیبیہ طاہروالی کے مہتمم وشیخ الحدیث کل کون تھے اورآج کون ہیں توجواب ملتاہے کل جامع المعقول استاذ کل مولانا منظوراحمد نعمانی اور آج مولانا حاجی احمد صاحب دونوں حضرت درخواستیکے تلمیذ خاص ۔اس دورمیں شہرہ آفاق دینی درسگاہ جامعہ عبداللہ بن مسعود کے بانی شیخ الحدیث کون توجواب آئے گا کہ حضرت درخواستی کے علمی جانشین وتلمیذ خاص شیخ الحدیث مولانا شفیق الرحمن درخواستی رحمة اللہ علیہ ہیکل جامعہ انوارالقرآن کراچی کے شیخ الحدیث کون اور آج تک مہتمم کون توجواب ملتاہے کل اس کے شیخ الحدیث حضرت درخواستی کے تلمیذ خاص اورنواسہ مولانا انیس الرحمن درخواستیاورآج تک مہتمم حضرت درخواستی کے تلمیذ خاص اور جانشین پیرطریقت حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی ہیں ۔ کل ادارہ جامعہ دعوة الارشاد چنیوٹ کامہتمم ورئیس کون ہے توجواب ملتاہے حضرت درخواستی کاتلمیذ خاص مولانا منظوراحمد چنیوٹی ۔آج دین پور شریف کاتاریخی مدرسہ راشدیہ کاسرپرست اعلیٰ کون توجواب ملتاہے حضرت درخواستی کے تلمیذ خاص حضرت میاں سراج احمد صاحب دامت برکاتہم اورعارف باللہ مولانا میاں مسعود احمد دین پوری مدظلہ ۔ حضرت کے آخری مرکز جامعہ مخزن العلوم کے مہتمم وذمہ دارکون توپھربھی جواب ملے گا حضرت درخواستی کے تلمیذ خاص صاحب زادگان حضرت مولانا مطیع الرحمن درخواستی ، حضرت مولانا فضل الرحمن درخواستی ۔بلوچستان سے پوچھوکہ تمہارے گھرگھرکو تحفیظ وتجوید قرآن مجید کی روشنی کس نے عطاء کی ؟توکہتے ہیں کہ حضرت درخواستی کے تلمیذ خاص مدرسہ تجوید القرآن کے مہتمم استاذ کل حضرت قاری غلام نبینے آج ملک کی معروف مادرعلمی قاسم العلوم ملتان کے شیخ الحدیث کون تواہل ملتان کہتے ہیں حضرت درخواستی کے تلمیذ خاص مولانا محمد اکبرصاحب مدظلہ ۔ جامعہ محمدیہ روجھان وجامعہ شیخ درخواستی کے مہتمم کون تودنیا جواباً کہتی ہے حضرت درخواستی کے تلمیذ خاص ونواسہ مجاہد ملت مولانا سیف الرحمن صاحب درخواستی ۔اس سلسلہ کومکمل کرنے کیلئے تو مکمل کتاب درکار ہے ۔اس لئے اس قضیہ کویہاں پرختم کرنے کیلئے اگرمیں یوں کہوں کہ حضرت درخواستی کے براہ راست تلامذہ یاشاگرد وں کے شاگردوں سے اس وقت دنیا علم آبا د ہے توبے جا نہ ہوگا حضرت رحمہ اللہ پردینی تعلیم تعلیم قرآ ن وحدیث کااتناغلبہ تھا کہ پورے خاندان میں کسی کو اسکول اورانگریز ی تعلیم نہیں دلوائی ۔ تمام اولاد بچے بچیاں نواسے نواسیاں پوتے پوتیاں درجہ بدرجہ دینی تعلیم کیلئے ہی وقف رہے ہیں ۔حضرت رحمہ اللہ کی ایک صدی سے زائد زندگی کے احاطہ کے لئے تو کئی جلدوں پر مشتمل ضخیم کتاب چاہئے جو ان شاء اللہ وبتو فیقہ جلد منظر عام پر آجائے گی ۔ بات کوسمیٹتے ہوئے عرض ہے کہ جس طرح اس باکمال شخصیت نے آ سمان علم ومعرفت پراُبھرتے ہوئے دنیا کوورطہ حیرت میں ڈال دیاتھا اس طرح ان کے سفر آخرت نے بھی دنیا کوحیران ودنگ کردیا۔امام احمد بن حنبل کی طرح ان کاجنازہ دیکھاگیا لاکھوں فرزندان توحید علماء مشائخ صلحاء حفاظ قراء مذہبی سیاسی جماعتوں کے قائدین وعمائدین تلامذہ متعلقین کااتنا جم غفیرکہ خان پور کادامن بے پناہ وسعتوں کے باوجود تنگ نظرآتاتھا۔تاریخ اپنے آپ کودھراتی ہے کہ کل علم ومعرفت کاوہ چمکتا دمکتا چاند جواپنی علمی وروحانی دھیمی دھیمی روشنی کے ساتھ مرشد کامل کے آ نگن سے طلوع ہوااور پھردنیا میں خوب چمکا ۔آج 19ربیع الاول 1415ھ کواپنے مرکزکی طرف واپس رجوع کرتے ہوئے اپنے مرشد کامل کے قدموں میں جاکر غروب ہوگیا یعنی علم ومعرفت کاعظیم کتب خانہ قرآن وحدیث رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور انوارات الٰہیہ سے بھرپور سینہ مبارک کو دین پورشریف کے تاریخی قبرستان اولیاء میں دفن کردیاگیا ۔
اللہ تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں ہوں ہمارے شیخ کی تربت مبارک پر اوردعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان کے مشن تعلیم وقرآن اورخدمت دین پر کاربند رہنے کی توفیق نصیب فرمائیں (آمین ثم آمین)