ٹرسٹ الحبیب

رفاہی کام کی افادیت و اہمیت
حدیث مبارک میں ارشاد نبویۖ ہے کہ من احیاھا فکانما احیا الناس جمعیاً (جس نیانسان کی زندگی بچائی اس نے پوری انسانیت کی زندگی بچائی)۔ اس لئے رفاہی کام، سوشل ورک اور انسانی خدمت ایک بہت بڑی نیکی ہے ، اسلام نے اس کی تعلیم دی ہے۔ کثرت سے ایسے واقعات ملتے ہیںکہ نبی اکرمۖ ہر دکھی، غریب اور نادار کی مدد اور اعانت کیلئے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ اس لئے جامعہ ہٰذا نے بی جنوب پنجاب کے پسماندہ ترین علاقوں میں اپنی رفاہی خدمات پیش کرنے کی ٹھان لی ہے۔ لہٰذا ان رفاہی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ ملائیں اور عنداللہ اجر کے مستحق بنیں۔ تفصیلات درج ذیل ہیں۔ )
آقائے نامدارۖ پر وحی نازل ہونے کے بعد پہلا تعارف اسی حوالہ سے سامنے آتا ہے۔ چنانچہ بخاری شریف (ج۔١) میں ہے کہ نبی اکرمۖ پر غارِ حرا میں جب وحی کا آغاز ہوا تو آپۖ نے سارا واقعہ اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ کو بیان کیا۔ حضرت خدیجہ نے آپۖ کو تسلی دیتے ہوئے بہت سی آپ کی خوبیوں اور صفاتِ حمیدہ و جلیلہ کا تذکرہ کیا ان میں یہ بھی ہے کہ آپ صلہ رحمی کرنے والے ہیں۔ ضرورت مندوں کے کام آتے ہیں، مہمانوں کی خدمت کرتے ہیں ، لوگوں کی مشکلات میں ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں، بے سہارا لوگوں کا بوجھا ٹھاتے ہیں۔
گویا امام المومنین حضرت خدیجہ نے رسول اللہۖ کو تسلی دیتے ہوئے اس عقیدہ کا اظہار کیا کہ جو لوگ انسانی سوسائٹی میں رہتے ہوئے فلاحی کام کرتے ہیں۔ سوشل ورکر بن کر زندگی گزارتے ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں غمزدہ نہیں کرتا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے من احیا مما فکانما احیا الناس جمعیاً کہ جس نے ایک انسان کی زندگی بچائی اس نے پوری انسانیت کی زندگی بچائی، اس آیت میں مومن، مسلمان کی زندگی بچانے کی بجائے انسان کا لفظ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خواہ کوئی بھی ہو کسی عقیدہ اور نظریہ سے اس کا تعلق ہو اس کی جان بچائی تو گھر یا پوری انسانیت کی جان بچائی۔ ہم جب تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں کہ جس طرح نبوت کا تعارف وحی کے نازل ہونے کے بعد رفاہی کاموںکے حوالہ سے حضرت خدیجہ کی گفتگو سے سامنے آیا، اسی طرح حنفیہ کا تعارف بھی سوشل ورکر کے طور پر سامنے آتا ہے۔ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق کفار کے ظلم و تشدد کو دیکھتے ہوئے مکہ مکرمہ سے کوچ کر کے جا رہے تھے راستہ میں قریش کے قبیلہ بنو قارہ کا سردار ابن الاغنہ ملا اس نے پوچھا اے ابو بکر کہاں جا رہے ہو؟ ابو بکر نے فرمایا کہ طلم ستم کی مکہ والوںنے انتھاء کر دی اب میں مکہ چھوڑ کے جا رہا ہوں۔ اس نے کہا میں آپ کو نہیں جانے دوں گا پھر وہی الفاظ کہے جو حضرت خدیجہ نے نبی اکرمۖ کیلئے کہے تھے کہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں۔ مہمانوں کی خدمت کرتے ہیں، محتاجوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، اسلام نے تو نبوت و خلافت دونوں کی بنیاد اور مزا رفاہی کام، انسانی خدمت اور سوشل ورکر کے طریقہ پر کروائی ہے ۔
آج ہم اپنے معاشرہ میں دیکھتے ہیں تو رفاہی کام کرنے کے بہت سے مواقع ہیں اور غریب نادار بھاری فیسوں اور ادویات کی مہنگائی کے پیش نظر اپنا علاج معالجہ نہیں کروا سکتے تو انکے لئے ادویات وغیرہ کا انتظام کرنا اور فری ڈسپنسری قائم کرنا۔ مثلاً غریبوں، یتیموں اور بیوائوں اور بے سہارا لوگوں کی کفالت خصوصاً ہمارے قرب و جوار میں علاقہ (روھی، ریگستان) ہے جس میں پانی کی کمی بہت زیادہ شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ اس کمی کو دور کرنے کیلئے اور پانی کی فراہمی کو یقینی بنوانے کیلئے کنواں جات کا انتظام کرنا اور ان پسماندہ ترین علاقوں میں علاج معالجہ کی سہولت کیلئے فری ڈسپنسریز کا قیام ، ایمبولینسز کی فرہامی اور موبائل کلینکس کے قیام کی اشد ضرورت ہے۔ اس علاقہ کے غریبا ور نادار لوگوں کیلئے چھت، یعنی گھر بنانے کا انتظام کرانا ہماری اولین ذمہ داری ہے۔

اہل خیر حضرات سے ان تمام مدات میں تعاون کی بھرپور اپیل ہےکہ ااس کار خیر میں حصہ ملا کر عنداللہ اجر کے مستحق بنیں-شکریہ

تفصیلات درج زیل ہیں

1-مسجد کی تعمیری لاگت—6 لاکھ سے 10 لاکھ

2-مسجد کی مرمتی لاگت—50 ہزار سے 2 لاکھ تک

3-ایک کنواں کی تعمیری لاگت—1 لاکھ 50 ہزار سے 2 لاکھ تک

4- کنواں کی مرمتی لاگت—25 ہزار سے 1 لاکھ تک

5- بڑی ایمبولینس کی خریداری—15 تا 18 لاکھ

6- چھوٹی ایمبولینس—6 تا 8 لاکھ

7- موبائل کلینک کے اخراجات—30 تا 35 ہزار

8- ووکیشنل سینٹر کے ابتدائ اخراجات—1 لاکھ روپے تک

9-ووکیشنل سنٹر کے ماہانہ اخراجات—15 سے 20 ہزار

مختلف جامعات میں عصری تعلیم کیلیے جامعہ کی طرف سے ماڈل سکولوں کا قیام

1- سکول کی تعمیری لاگت—4 تا 6 لاکھ

2- سکول کی مرمتی لاگت—50 ہزار تا 1 لاکھ

3- سکول کے ماہانہ اخراجات—50 ہزار سے 1 لاکھ

4- کالج و پرائیویٹ سکول میں دینی تعلیم دلوانے اور قرآن بمع تجوید کے پڑھانے کے ماہانہ اخراجات—–5 تا 15 ہزار